Muntazirt-e-hastam by neha imtiaz complete pdf urdu novel |
sneak peak
"کافی کچھ بدل گیا ہے دو ہفتوں میں۔۔۔"
لمبی ہوتی خاموشی کو یَشل کی آواز نے توڑا۔ ارمغان نے موبائل کی طرف دیکھا جہاں یَشل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ طنزیہ مسکراہٹ
"ایسا تو کچھ نہیں ہے۔۔تمہیں پتا ہے نہ اُسکی چھٹیاں چل رہی تو کچھ نہ کچھ ٹرائے کرتی رہتی ہے۔۔"
وہ اُسے بتا رہا تھا۔۔۔یا پھر شاید خود کو
عزہ کا بےدھڑک روم میں آنا اور ایسے ظاہر کرنا جیسے وہ دونوں بہت زیادہ کلوز ہوں یَشل کو کچھ ناگوارہ گزرا تھا اور یقیناً وہ ہرٹ ہوئی تھی اتنا اُسے اندازہ تھا۔
"جی بلکل۔۔۔آپ کے لیے کافی محبت سے ٹرائے کر رہی تھی وہ۔۔"
وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولی تو ارمغان مسکرا دیا۔۔
"تو تُم جیلس ہورہی ہو؟؟"
"میری جُتی نوں وی پرواہ نی۔۔۔"
ارمغان نے قہقہہ لگایا
"تو وہاں رہ رہ کر تُم نے پنجابی سیکھ لی ہے؟"
وہ صوفے سے ٹیک لگاتا دوبارہ ریلیکس ہوکر بیٹھا
"ہاں فارغ رہ رہ کر مجھ سے سیکھی ہے اِس نے۔۔۔"
اور یہ عزہ کا بھائی”رائد خٹک“ دونوں کے کرتوت ایک جیسے تھے۔ یَشل نے فون سے نظر ہٹا کر سامنے دیکھا۔
وہ اندر آچکا تھا، ارمغان کے مسکراہٹ آہستہ سے غائب ہوئی۔
"فضول نہیں ہانکا کرو تُم۔۔کیا ہے اب؟"
ارمغان کا لحاظ کرتی وہ بامشکل لہجہ ٹھیک رکھتی ہوئی بولی۔ کتنا ڈھیٹ تھا وہ صبح ہونے والی بحث کے بعد دوبارا اُسکے سامنے موجود تھا
"میں بور ہو رہا تھا اسی لیے آیا ہوں۔۔۔"
وہ بولتا ہوا نواب کی طرح صوفے پر بیٹھا۔۔۔ ارمغان کا سکون برباد ہوا۔ دوپہر کے دو نہیں رات کے بارہ بج رہے تھے اور وہ اُسکے کمرے میں موجود تھا۔ دوپہر کے دو بھی بجیں تو رائد کا یَشل کے کمرے میں آنا مناسب نہیں تھا لیکن یہ بات رائد خٹک کی سوچ میں دور دور تک نہیں آتی تھی۔
یَشل نے گہرا سانس لیا۔۔
"ارمغان میں کرتی ہوں بات۔۔"
اُسنے موبائل اُٹھا کر کال کاٹی اور موبائل بیڈ پر پٹخ کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ دوسری طرف ارمغان ویسے ہی بیٹھا موبائل کی سکرین کو دیکھتا رہ گیا۔
"تمہاری کھوپڑی میں دماغ ہے بھی کہ نہیں؟صبح والی ساری بکواس بھُلائے تُم یہاں آگئے ہو۔۔تمہارے اندر واقعی کوئی تمیز اور تہذیب نہیں ورنہ رات کے اس وقت اپنی شکل لے کر یہاں نہ آتے۔۔"
وہ بدلحاظ ہوئی تھی۔ رائد صوفے سے اُٹھا
"لیکن تُم بھی تو رات کے اِس وقت لڑکے سے ہی بات کر رہی
تھی۔۔ویڈیو کال پر۔۔بند کمرے میں۔۔ "
رائد کے ذومعنی لہجے اور بات پر یَشل کچھ سیکنڈ صدمے اور بےیقینی سے اُسے دیکھنے لگی۔ اُسنے اپنے ہاتھ کو روکنے کی قطعاً کوشش نہ کی اور اگلے ہی پل اسکے منہ پر تمانچہ دے مارا
"اپنی بکواس بند کرو۔۔۔"
وہ چیخی تھی
"انتہائی گھٹیا انسان ہو تُم،،اپنی واحیات سوچ اور شکل لے کر دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔"
لہجہ پہلے سے زیادہ سخت اور آواز اونچی تھی۔
"یَشل میرا وہ مطلب۔۔۔"
"ائی سیڈ گیٹ آوٹ آف ہئیر۔۔۔!!!"
اس بار وہ زخمی شیرنی کی طرح دھاڑی تھی۔
GIVE US YOUR FEEDBACK IN COMMENT
1 Comments
I love this novel,Is Wrtrs ke sare novels ache he,,
ReplyDelete