Subscribe Us

Wo Mera Humsafar by Mona Rizwana complete urdu novel pdf

 

Wo Mera Humsafar by Mona Rizwana complete  urdu novel pdf download
wo mera humsafar novel written by mona rizwan, It is  khoon baha based, haveli based and islamic based novel, Mona Rizwan a famous writer on social, download the complete urdu novel pdf , read online novel, free download.
We are delighted to have you here. We have created a premier platform for both writers and readers, where all writers can showcase their literary talents, and readers can find the finest novels. You will discover a wide range of novels on this site, including romantic, horror, family-based, mystery, second-marriage themes, army-related stories, adventure tales, Islamic literature and much more.

sneak peak: 1
بابا یہ میں نے کیا سنا ہے؟ آپ میری منگنی احمر سے کرنا چاہ رہے ہیں۔؟
نہا کر وہ جب باہر نکلی تو باپ  چاۓ بناتا دیکھ کر وہیں بیٹھ گٸ۔۔
دودھ جیسا سفید گول مٹول چہرہ اور گلاب جیسے سرخ گال۔۔ نفاست سے سیٹ کیا گیا حجاب ۔۔۔ وہ قدرتی حسن سے مالامال تھی۔۔۔
ہاں یہ سچ ہے مگر تجھے کس نے بتایا؟۔۔
سیف اللہ نے چاے پیالیوں میں انڈیلتے ہوے حیرت سے کہا
مگر بابا ایک بار پوچھ لیتے۔۔ آپ جانتے ہیں نا کہ میں اسے پسند نہیں کرتی۔۔
باپ سے چاے کی پیالی لے کر ساٸیڈ پر رکھتے اس نے کہا تو سیف اللہ نے گہرا سانس لیا
بیٹی تو جانتی ہے کہ مجھ پر تیرے خالو کا کتنا قرضہ ہے ۔۔۔ اور احمر تجھے پسند بھی کرتا ہے تجھے خوش رکھے گا۔۔
سیف اللہ نے چاے کی پیالی ہونٹوں سے لگا کر ایک گھونٹ بھرا۔۔
بابا  آپ مجھے بیچ رہے ہیں؟؟
عاٸشہ کی بات پر سیف اللہ نے حیرت سے اسے دیکھا
وہ اچھا لڑکا نہیں ہے بابا۔۔۔ خدارا مجھے جہنم میں مت جھونکے آپ جانتے ہیں وہ کیسے لوگ ہیں۔۔
عاٸشہ نے باپ کو حیرت زدہ دیکھ کر اپنی بات کی وضاحت دی
مجھے یقین ہے کہ میری بیٹی میرا مان رکھے گی۔۔سیف اللہ سنجیدگی سے کہتا چاے کی پیالی وہیں چھوڑے باہر نکل گیا۔۔
   عاٸشہ نے بے بسی سے دروازے کو دیکھا ۔۔۔ڈھیروں آنسوو اس کی بڑی سی آنکھووں میں بھر گے تھے۔۔   ۔یا اللہ مدد۔۔

sneak peak 2:


sneak peaks2:ہمیں خون بہا میں لڑکی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔
دادا سردار کے فیصلے پر پوری پنچاٸت میں موت سا سناٹا چھا گیا۔۔۔ شیراز کے تو سر پر ساتوں آسمان ٹوٹ پڑے تھے۔۔سلطان بھی حیرت سے انہیں دیکھنے لگا۔۔
ی یہ کیا کہہ ر ہے ہیں آپ۔۔ایسا نہیں ہو س سکتا۔۔۔
وہ گلہ تر کرتا بولا تو دادا سردار نے خود آلود نظروں سے اسے گھورا۔۔ 
ہمیں خون بہا میں تین لڑکیاں چاہیے ہیں تمہارے خاندان کی اور جب وہ کمینہ ہمیں مل گیا اس دن اس کی زندگی بھی ختم کروں گآ۔۔۔
دادا سردار غصے سے دھاڑے تھے۔۔ سلطان نے پریشانی سے ماتھا مسلا مگر وہ کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔۔
م مگر م میری تو ایک ہی بیٹی ہے م میں ک کیسے۔۔۔۔
شیراز کی ہواٸیاں اڑ گٸیں تھیں۔۔
ہمیں کچھ نہیں پتا تیرے خاندان کی تین لڑکیاں کل شام تک تیار ہونی چاہیے ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔ 
دادا سردار نے غصے سے وارننگ دی ۔۔ وہاں کوٸ شخص ایسا نہ تھا جو کچھ کہنے کی ہم:ت کرتا۔۔
sneak peak 3:


وہ بیڈ پر بیٹی انگلیاں مروڑنے میں مصروف تھی۔۔ سر جھکا کر وہ مسلسل درود پاک کا ورد کر رہی تھی۔۔دروازہ کھلنے کی آواذ پر اس کی   تیز دھڑکنیں مزید تیز ہوٸیں ۔۔۔ جھکا سر مزید جھکا لیآ۔۔
سلطان نے بیڈ پر بیٹھے اس نازک وجود کو دیکھا۔۔۔ سر جھکا ہونے کی وجہ سے اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا۔۔ گورے گورے ہاتھ جن کی انگلیاں مسلسل مروڑنے کی وجہ سے سرخ پڑ گٸ تھیں  ۔۔۔۔   سلطان اسے نظر انداذ کرتا کپڑے لے کر ڈریسنگ روم میں چلا گیآ۔۔ 
عاٸشہ نے سر اٹھا کر ڈریسنگ روم کے بند درواذے کو دیکھا۔۔۔  
تھوڑی دیر بعد درواذہ کھلنے کی آواذ پر اس کی دھڑکنیں تیز ہوی تھیں۔۔
چینج کر لو کافی رات ہو گٸ ہے۔۔۔ اسے بدستور دلہن بنے بیٹھے دیکھ کر وہ زچ ہوا ۔۔
جی۔۔۔۔ مدہم سے آواذ اس کے کانوں سے ٹکرآٸ تو اس نے بے اختیار اس کا چہرہ دیکھآ۔۔
بڑی بڑی خوبصورت کالی آنکھیں۔۔  گلابی گال اور لرزتے ہونٹ۔۔ وہ بے انتہا خوبصورت تھی۔۔ آج سے پہلے اتنا مکمل حسن سلطان کی نظروں میں نہیں آیا تھآ۔۔وہ بے اختیار سا اسے دیکھے گیا۔۔۔ 
عاٸشہ کو پہلی بار ایک مرد دیکھ رہا تھآ۔۔اس نے ہمیشہ خود کو نا محرم کی نظروں سے بچا کر رکھا تھآ۔۔اسے سکون سا ملا تھا سلطان کے دیکھنے پر۔۔۔
وہ اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلی گٸ۔۔ سلطان درواذہ بند ہونے کی آواذ پر ہوش میں آیا۔۔۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گٸ۔۔لیکن اگلے ہی پل س کے چہرے پر سنجیدگی پھیل گٸ۔۔ 
وہ ایسا شخص نہیں تھا جو ایک عورت سے کسی اور کے گناہ کا بدلہ لیتا۔۔اس کی ماں نے ہمیشہ اسے بڑوں کی عزت کرند سکھایا تھا خاص کر عورت ذات کی عزت وہ سب سے زیادہ کرتا تھآ۔۔
وہ بیڈ کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔۔ موباٸل اٹھا کر دیکھا تو رباب کے کٸ مسجز آۓ ہوے تھے۔۔۔ اسے افسوس ہوآ۔۔ کاش وہ دادا سردار سے کہہ دیتا کہ رباب سے نکاح کر دیں۔۔۔آنا تو اسے اسی گھر میں تھا  مگر اس نے دیر کر دی۔۔۔
وہ سوچوں میں گم تھا جب عاٸشہ سادہ سے گلابی رنگ کے  سوٹ میں سر پر حجاب سیٹ کیے باہر نکلی ۔۔۔
وہ ایک بار پھر یک ٹک اسے دیکھنے لگآ۔۔
م میں ن نماذ پڑھنا چاہتی ہوں۔۔۔ 
عاٸشہ نے تزبذب سی ہو کر اس سے کہا
ہا ہاں پڑھ لو وہ رہی جاۓ نماذ۔۔
سلطان نے چونک کر کونے میں پڑی جاۓ نماذ کی طرف اشارہ کیا۔۔
عاٸشہ سر ہلاتی جاے نماذ بچھا کر نماذ پڑھنے لگی۔۔وہ اس وقت چاند کا ٹکڑا لگ رہی تھی۔۔۔ سلطان اپنی کیفیت پر قابو پاتے ہوے ساٸیڈ لیمپ آف کر کے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔۔
                           *********
give us your  feedback in comment
or

Post a Comment

0 Comments