Subscribe Us

Tasvar E dilbaran by sandal malik complete urdu pdf novel

Tasvar E dilbaran by sandal malik complete urdu pdf novel
Tasvar E dilbaran by sandal malik complete urdu pdf novel download

Tasvar E dilbaran by sandal malik complete urdu pdf novel download in pdf format, tasvar e dilbaran vani based novel download,  Urdu novels PDF download, Free Urdu novels PDF,  Urdu fiction PDF download, Famous Urdu novels PDF,  Romantic Urdu novels PDF,  Social Urdu novels PDF,  Urdu literature PDF download, Best Urdu novels PDF, Urdu novels by renowned authors PDF,  Classic Urdu novels PDF,  Contemporary Urdu novels PDF,  Urdu novels collection PDF, Urdu novels online PDF,  Urdu novels library PDF, Urdu novels in PDF format, vani based novel in urdu, PDF download, PDF free download, Free Urdu novel PDF,  Urdu novel PDF download,  novel PDF free, Online Urdu novel PDF, Read Urdu novel online PDF, PDF free download, Urdu novel PDF,  Free ebook Urdu novel.


SNEAK PEAK

بس کچھ لمحے اسکو بے باک نگاہوں سے دیکھتا رہا اور پھر۔۔۔ 

"ویسے ہو تم کافی ہاٹ۔۔۔۔ میں تو پہلی بار یوں دیکھ رہا ہوں۔۔۔ لگتا ہے اب نشہ چھوڑنا پڑے گا۔۔۔ " بنا اسکے چہرے کو چھوئے۔۔۔ شہادت کی انگلی سے اسکے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے۔۔ وہ بولا تھا۔۔۔ رملہ نے آنکھیں زور سے بند کر رکھی تھی۔۔ خوف سے رنگت سرخ ہونے لگی تھی۔۔۔ اسے لگا کبیر نا گیا تو وہ رو دے گی۔۔۔۔ 

کبیر پیچھے ہوا۔۔۔۔ اور ایک معنی خیز بے باک نگاہ اسکے دلکش سراپے پر ڈالتے۔۔۔ کچن سے نکل چکا تھا۔۔۔

SNEAK PEAK

 ات کے اس وقت۔۔۔ تم اکیلی میرے کمرے میں مجھ سے کیا بات کرنے آئی ہو۔۔۔ اتنی ضروری کیا بات تھی کہ تم بھول گئی۔۔ رات کے اس پہر تنہا کسی غیر مرد کے کمرے میں نہیں جاتے ہیں۔۔۔ " اسکے چہرے کو سپاٹ نگاہوں سے دیکھتے۔۔۔ وہ اتنے ہی سرد لہجے میں بولا تھا۔۔ مہیرہ کے لیے کبھی اسکا لہجہ یا نگاہیں سرد نا ہوئی تھی مگر اس وقت اسے مہیرہ پر شدید غصہ آرہا تھا۔۔جس کے وجود پر ایک شفون کے دوپٹے کے علاوہ کوئی شال نہیں تھی۔۔ بیشک وہ حویلی کی نہیں تھی مگر رملہ کے ساتھ تو ہوتی۔۔ اسے کچھ تو پتا ہونا چاہیے تھا۔۔ ۔۔ پھر وہ جو بات کرنے آئی تھی حازم اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتا چاہتا تھا


جبکہ مہیرہ جو کچھ اور کہنے والی تھی اسکی بات سنتے شدت سے چونکتے اسے دیکھا۔۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا سرد و سپاٹ نگاہوں سے۔۔۔ ایکدم اسے احساس ہوا۔۔ وہ اس وقت یہاں اکر کس قدر بڑی غلطی کر چکی تھی۔۔ انجان گھر۔۔ انجان لوگ۔۔ اور انجان مرد۔۔ رملہ کے علاوہ کسی کو تو پتا بھی نہیں تھا کہ وہ اسکے کمرے میں تھی۔اگر وہ کچھ۔۔۔۔۔ اسے گھٹن کا شدید احساس ہوا۔۔ دوپٹے کے پلو کو سختی سے پکڑتے پر خوف نگاہوں سے اسے دیکھتے۔۔ وہ بے ساختہ دو قدم پیچھے ہوگئی تھی۔۔۔ وہ ڈرپوک لڑکی نہیں تھی مگر اس وقت اسے احساس ہوا کہ وہ کتنی کمزور تھی۔۔ یا پھر لمحے کمزور تھے۔ 
"و۔۔۔ وہ م۔۔ میں رملہ۔۔۔ 

" بقول تمہارے اور تمہاری دوست کے۔۔۔ اس حویلی کے مرد نشئی ہیں نا۔۔۔ تو تم نے ایک پل کو بھی نہیں سوچا اگر اس وقت میں نشے میں ہوتا تو۔۔۔۔ " گرم کافی کا کپ ہاتھ میں لئے وہ اسکی جانب بڑھا۔۔ لہجہ و نگاہیں ہر جزبات سے عاری تھی اسنے کئی بار رملہ کو یہ کہتے سنا تھا۔۔
۔۔۔ مہیرہ کا سانس خوشک ہونے لگا۔۔۔۔ اسنے بھاگنا چاہا مگر ہل ہی نا پائی۔۔ وہ بس اس کے بڑھتے قدموں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ خوف کے باعث دھڑکنیں سست اور آنکھیں نم ہورہی تھی۔۔۔ اسنے تو بالکل ایسا کچھ سوچا تھا ہی نہیں۔۔ اور اب حازم کا پاس آنا۔۔۔۔ 

" م۔ میں جاتی ہوں۔۔۔ صبح بات۔۔۔ 

" صرف نشہ نہیں۔۔۔ عورت بھی تو بہکاتی ہے نا۔۔۔ نشے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔۔۔ اور اس وقت۔۔۔ 

وہ بالکل اسکے پاس اکر رکا۔۔۔ مہیرہ اسکی بات سنتے سٹل ہوئی۔۔۔ وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا!۔ 

" اور اس وقت تمہارا میرے کمرے میں آنا مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبو۔۔۔ 

"ن۔۔ نہیں۔۔۔ ایسا نہیں۔۔۔۔ میں ایسی نہیں۔۔۔ آہہہہ۔۔۔۔ 

مگر اسکی بات پوری ہونے سے پہلے حازم سرحان نے ہاتھ میں پکڑا کپ پوری شدت سے نیچے پھینکا تھا۔ مہیرہ کی چیخ بے ساختہ تھی۔۔ وہ ڈر کر دو قدم اور پیچھے ہوئی۔۔ لبوں پہ ہاتھ رکھے۔۔۔ وہ باقی سسکیوں کا گلہ گھوٹنے لگی۔۔۔ دوپٹہ سر سے کندھوں پر گر گیا تھا۔۔۔ اسے حازم سے ڈر لگا۔۔ وہ تو ایسا نہیں تھا۔۔۔۔

Sneak peak
"ٹھیک ہے، تم اپنی بیٹی کو 'ونی 'کی صورت میرے بیٹے کے نکاح میں دو۔ اسی صورت میں تمہارا بیٹا بخشا جائے گا۔۔ ورنہ تمہارے بیٹے کو کوئی بھی نہیں بچا سکتا ہے۔۔۔ " شاھد جدیال نے سامنے کھڑے اسحاق خان کو دیکھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا تو جیسے سب پر سکتا طاری ہو چکا تھا۔۔۔۔ 

مہیرہ نے شدت سے باپ کا بازو دبوچا۔۔ وہ کہیں چھپنا چاہ رہی تھی۔۔ حالات ایسے ہو جائیں گے کب اس نے سوچا تھا۔۔۔۔ جبکہ ارتسام۔۔۔ ارتسام نے نفرت و صدمے سے انہیں دیکھا۔۔۔ 

"م۔۔ میری بہن کا نام بھی نہ لیں جرگے میں۔۔۔ میری وجہ سے۔"۔ اسکا دل کٹا۔۔۔ "میری وجہ سے رملہ مری ہے تو سزا م۔۔۔۔۔ 

" جرگے میں تمہیں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے لڑکے۔۔۔ تمہارے باپ سے بات ہو رہی ہے تم چپ رہو۔۔ اسحاق خان۔۔۔۔ بیٹے یا بیٹے میں سے کسی ایک کو چنو۔۔۔۔ " اب کی بار بولنے والے واحد سدیال تھے۔۔۔ جرگے میں کافی لوگ تھے۔۔۔ مگر سامر میر کہیں نہیں تھا ابھی تک۔۔۔۔ 

"کیوں حازم۔۔ تمہارا کیا فیصلہ ہے۔۔۔ اس*** کی بہن کو ونی میں لوگے۔۔۔ " ایک اور سر پنج میں سامنے بیٹھے۔۔ سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس حازم کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو حازم نے پہلے انہیں دیکھا۔۔۔ پھر چہرہ ہلکا سا موڑ کر اس لڑکی کو۔۔۔۔۔ 

اس کے دیکھتے ہی مہیرہ اور چھپ گئی۔۔ نجانے آج کیوں وہ اتنی خوفزدہ تھی۔۔ اگر اسے ونی کردیا جاتا۔۔ حازم کے نکاح میں دے دیا جاتا تو وہ اسکا جینا مشکل کردیتا۔۔۔ ایک تو اس نے پورے گاؤں کے سامنے اسے تھپڑ مارے تھے اور پھر رملہ کے قتل کا الزام بھی لگایا۔۔۔ خیر الزام تو نہیں تھا۔۔ مگر اس کے سچ کو اسی کے لیے مشکل بنا دیا گیا تھا۔۔ خوف سے اسکا دل تیز رفتار سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ اسے یقین تھا کہ اسکا باپ ہمیشہ کی طرح بیٹے کو اس پر فوقیت دے گا۔۔۔ اسے چھوڑ دے گا۔۔۔۔ مگر وہ پھر بھی اسحاق خان کا بازو زور سے پکڑے رہی تھی۔۔۔۔ ارتسام بس سپاٹ نگاہوں سے حازم کو دیکھ رہا تھا جس کی نگاہیں بیچ جرگے میں اسکی بہن پر تھیں۔۔۔ 


"مجھے منظور ہے۔۔۔۔ " وہ مدھم مگر بھاری آواز میں بولا۔۔۔ آج سے پہلے وہ بھی ونی کی رسم کے خلاف تھا مگر اس۔ وقت۔۔ اس وقت شاید اسکے دل میں چور تھا۔۔۔اسے وہ لڑکی مل سکتی تھی۔۔ آج اور اسی وقت۔۔۔۔ تو کیوں پیچھے ہوجاتا۔۔۔ پھر کافی حساب چکنا کرنے تھے اس سے۔۔۔ 

مہیرہ نے خوف سے آنکھیں بھینچ لی۔۔۔۔ 
ارتسام کے دل میں کچھ اور نفرت و بدلے کی آگ بھڑکنے لگی تھی۔۔۔۔ مگر وہ چپ تھا۔۔۔ 
اسکے اندر طوفان تھا ایک۔۔ وہ برباد کردینا چاہتا تھا حازم کو۔۔۔ پہلے اسکی محبت پھر بہن۔۔۔۔ اسکا دماغ سائیں سائیں کررہا تھا۔۔۔۔۔ 

ابھی کوئی کچھ بولتا کہ یکے بعد دیگر کچھ گاڑیاں اکر رکی۔۔۔۔ اور دوسرے نمبر والی گاڑی کا بیک ڈور کھولتے۔۔سفید کاٹن کی شلوار قمیض پہنے کندھوں پر شال رکھے۔ سامر میر۔۔ آنکھوں پر گاگلز لگاتے باہر نکلا تھا۔۔۔۔ اسے نہیں پتا تھا آج جرگہ کس کا تھا۔۔ نا ہی وہ شامل ہونا چاہتا تھا جرگے میں۔۔۔۔ مگر پھر جانے کیا سوچ کر وہ آگیا۔۔۔۔ 
سامر دائیاں ہاتھ ماتھے پر لے جاتے۔۔ سب کو خاموش سلام کرتے۔۔۔ حازم کے ساتھ بیٹھ گیا۔۔۔۔ 
سب نے ایک مؤدب  نظر سے اسے دیکھا۔۔ پھر اسحاق خان کو۔۔۔۔ جو شاید فیصلہ نہیں کر پارہا تھا۔۔۔۔۔ 

"بولو اسحاق خان۔۔۔۔ شاھد جدیال نے مغرور لہجے میں کہا۔۔ انہیں یقین تھا ایک بار پھر بیٹے کا انتخاب ہوگا۔۔ اور وہ اپنی چال میں کامیاب ہو جائے گا۔۔۔ اس لڑکی نے بھرے گاؤں کے سامنے انکے بیٹے کا تماشا بنایا۔۔۔ اسکے بھائی نے اسکی بیٹی سے محبت کرنے کا گناہ کیا۔۔ وہ کیسے جانے دیتا۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔۔ مہیرہ کو ونی میں لینے کے بعد وہ ارتسام کو کسی کیس میں کر کے اندر کرنے کا پورا ارادہ رکھتے تھے۔۔۔۔ 

" ب۔۔ با۔۔ با۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں جانا۔۔۔۔ " مہیرہ نے جیسے التجا کی۔۔۔ اسکی آنکھیں برس رہی تھی۔۔۔ 

سامر ایکدم جیسے چونکا۔۔۔۔ سامنے ارتسام کو پھر اسحاق خان کو دیکھتے جب نظر مہیرہ پر گئی تو ساکت رہ گئی تھی۔۔۔ دل بھی ساکن ہوگیا۔۔۔۔ وہ شل نگاہوں سے اس لڑکی کو دیکھتے جیسے کچھ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔۔ مگر واحد سدیال کی اگلی بات اس پر سب واضح کرتی۔۔ اسکے دل کی دھڑکنوں کو روک چکی تھی۔۔۔ 

"اپنی بیٹی کو ونی میں دے دو۔۔۔ یہ تمہارے اور تمہارے بیٹے کے حق میں بہتر ہوگا۔۔۔۔ " وہ سرد لہجے میں بولے تو اسحاق خان نے نم آنکھوں کے سنگ۔۔۔ اپنے بیٹے کو اور پھر خود میں چھپتی بیٹی کو دیکھا۔۔۔۔ فیصلہ کرنا مشکل تھا۔۔۔ مگر فیصلہ کرنا بھی تھا۔۔۔۔ سب سانس روکے اس کے بولنے کے منتظر تھے۔۔۔۔۔


"Tasveer-e-Dilbaran" is a famous Pakistani Urdu novel written by Sandal Malik. The novel revolves around themes of love, sacrifice, and societal norms. It portrays the journey of its central characters through various trials and tribulations, exploring the complexities of human emotions and relationships. The title, "Tasveer-e-Dilbaran," translates to "Portrait of Loved Ones," hinting at the focus on the characters' emotions and connections. With compelling storytelling and rich character development, the novel has garnered praise from readers for its depth and emotional resonance.
"Tasveer-e-Dilbaran" by Sandal Malik is a novel that delves into the cultural practice of "vani," a form of forced marriage prevalent in certain regions. The story revolves around characters whose lives are affected by this practice, highlighting the injustices and struggles faced by individuals caught in such circumstances. Through its narrative, the novel sheds light on the societal norms and challenges surrounding vani, while also portraying the resilience and courage of those who strive to overcome its implications. Sandal Malik skillfully weaves together themes of love, sacrifice, and societal expectations within the framework of vani, creating a poignant and thought-provoking narrative.
"Explore the captivating world of Urdu literature with our extensive collection of Urdu PDF novels. From timeless classics to contemporary masterpieces, our library offers a diverse range of Urdu novels spanning romance, suspense, historical fiction, and more. Immerse yourself in the enchanting narratives crafted by renowned Urdu authors, and embark on unforgettable literary journeys. Whether you seek heartwarming tales of love and longing or gripping stories of adventure and intrigue, our collection has something for every Urdu literature enthusiast. Download your favorite Urdu PDF novel today and experience the magic of Urdu storytelling at your fingertips."

give us your feedback in comment

If you want to read mpre novels than open your google and visit our website www.urdupdfnovel.com
If any writer want to publish their novels than contact us.

MAY  YOU LIKE:


Post a Comment

0 Comments