Subscribe Us

Dil tere sang jor lya novel by huria malik complete urdu pdf novel

Dil tere sang jor lya novel by huria malik complete urdu pdf novel
Dil tere sang jor lya novel by huria malik complete urdu pdf novel

Dil Tere Sang Jor Lya novel download, Dil Tere Sang Jor Lya PDF free, Dil Tere Sang Jor Lya online read, Dil Tere Sang Jor Lya complete novel, Free download Dil Tere Sang Jor Lya, Dil Tere Sang Jor Lya Urdu novel, Dil Tere Sang Jor Lya full novel PDF,  Dil Tere Sang Jor Lya by Huria Malik, Dil Tere Sang Jor Lya novel free PDF, Huria Malik Dil Tere Sang Jor Lya download, Urdu romantic novel download, Free Urdu romantic novels PDF, Online Urdu love stories, Urdu love novels free download, Romantic Urdu novels full, Popular Urdu romantic novels, Best Urdu romantic novels PDF, Latest Urdu romantic novels, Classic Urdu romantic novels, Urdu novels romantic category,  Huria Malik novels download, Free Huria Malik novels PDF, Huria Malik books online,  Huria Malik romantic novels download,  Best Huria Malik novels PDF, Huria Malik novels free download, Latest Huria Malik novels,  Huria Malik Urdu novels,  Popular novels by Huria Malik, Huria Malik novels collection PDF

"Dil Tere Sang Jor Dya" by Huria Malik is a romantic Urdu novel that intricately weaves the stories of multiple couples, each navigating the complexities of love, societal expectations, and personal growth. The novel is well-regarded for its portrayal of deep emotions and the various dynamics that influence relationships.

The narrative primarily focuses on several intertwined love stories, exploring themes such as the impact of social status, personal ego, and the transformative power of love. Each couple in the story faces unique challenges, reflecting a wide array of romantic experiences and emotional journeys. The author, Huria Malik, is known for her ability to create compelling characters and realistic scenarios that resonate with readers, making the novel a captivating read for those who enjoy socio-romantic


SNEAK PEAK:


"آپ کو نہیں لگتا کہ آپ مجھ سے میرا سکون چھیننے کا باعث بن رہی ہیں؟" اس نے اس سے چند قدموں کے فاصلے پہ کھڑی زحلے کو وہاں سے کھسکتے ہوئے دیکھا تو لپک کے اس کی کلائی تھامی۔


"کیسا سکون؟" اس کے الفاظ پہ اچنبھے کا شکار ہوتی وہ اس کے سلگتے لمس کے حصار میں جھکڑے ہاتھ کو ہولے سے کھینچتی رخ موڑے اسے دیکھنے لگی جو اسی کی جانب متوجہ تھا۔

اس کے یوں سوال پہ سوال کرنے پر اس نے اس کی کلائی پہ گرفت مضبوط کرتے ہوئے اپنی اوڑ کھینچا تو وہ لڑکھڑاتی ہوئی اس کے بالکل قریب صوفے پہ جا گری جبکہ کھلے بال ذوالنورین کے سینے پہ بکھر گئے۔

"وہی سکون جو آپ کی قربت میں چھپا ہے۔" اس کے بالوں کی مہک سے اپنی سانسوں کو معطر کرتا وہ بھاری لہجے میں بولا تو اس کے حواس جھنجھنا اٹھے لیکن اگلے ہی پل حقیقت کی دنیا میں لوٹتی وہ اپنے بال ایک جھٹکے سے سمیٹی نامحسوس انداز میں اس سے فاصلے پہ ہوئی۔


"اپنی اماں کی خواہش پوری کرنے کے لیے آپ ایسی لفاظی تو مت جھاڑیں، میں تو ویسے بھی یہاں حکم کی تکمیل کے لیے آئی ہوں۔" بے تاثر و بے لچک لہجے میں بولتی وہ اس کے مسکراتے چہرے کو پتھریلے تاثرات میں بدل گئی۔


SNEAK PEAK

"کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ طلاق کا مطالبہ آپ کی طرف سے ہے یا دوسری جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے؟" اس کی پرسکون مگر قدرے چبھتی آواز پہ مقدم سائیں اور کردم سائیں کو خاصی ناگوار گزری جبکہ بی جان نے ہول کے پوتے کی جانب دیکھا جو ماتھے پہ مخصوص بل ڈالے صوفے پہ بیٹھا خاصے تیکھے چتونوں کے ساتھ 'سسرالیوں' کو دیکھ رہا تھا۔

"اس سے آپ کو غرض نہیں ہونی چاہیے۔" کردم سائیں نے اس وقت بھی مصلحت کا دامن تھامے رکھنے کی کوشش کی جو دوسری جانب کچھ خاص پسند نہ کی گئی تھی۔


"مجھے اسی بات سے تو غرض ہے کیونکہ نکاح میں میرے 'وہ' ہیں نا کہ آپ لوگ۔" اس کی پرسکون آواز اس وقت قدرے گستاخی کے زمرے میں داخل ہو رہی تھی کیونکہ اس کے الفاظ پہ مقدم سائیں کا چہرہ مارے غیض کے سرخ پڑنے لگا تھا۔


"رہبان گردیزی!اگر کل شام تک طلاق کے پیپر حویلی نہ پہنچے تو اپنے علاقے کو بچانے کی تگ و دو میں لگ جانا۔" ایک جھٹکے سے اپنی نشست چھوڑتے ہوئے مقدم سائیں خاصے غضبناک لہجے میں گویا ہوئے تو بی جان سمیت گردیزی ہاوس کے افراد کے چہروں پہ پریشانی پھیل گئی ماسوائے اس کے جسے یہ دھمکی دی گئی تھی۔


"معذرت کے ساتھ شاہ سائیں لیکن کل شام تک طلاق کے کاغذات ہرگز حویلی نہیں پہنچیں گے بلکہ میں خود حویلی آوں گا کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔" وہ بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا بہت تحمل کے ساتھ لفظ ٹھہر ٹھہر کے بولتا رکا تو فرجاد صاحب نے اس کے چہرے کو دیکھا جہاں اس کی کنپٹی کی پھڑکتی رگ اس کے اندر جاری خلفشار کی نشاندہی کر رہی تھی۔


"کیونکہ مجھے اپنی 'بیوی' سے ملنا ہے۔" نہایت دیدہ دلیری اور بے باکی سے بات مکمل کرتا وہ وہاں موجود نفوس کو ساکت کر گیا



DOWNLOAD PDF NOVEL

Give us you feedback in coment

 

Post a Comment

0 Comments